جز تری آنکھوں کے کن آنکھوں نے
لطف کا ہاتھ رکھا درد کی پیشانی پر
پیار کی آنکھوں سے آنسو پوچھے
نرمیاں
لمحۂ وصل کی مانند
دل و جاں میں اترتی ہی چلی جاتی ہیں
ہجر کی شام ہے ڈھل جائے گی
وصل کا لمحہ گریزاں ہے پگھل جائے گا
تیرے رخسار کی دہکی ہوئی رنگین شفق
اور بھی سرخ ہوئی
تیرے سلگے ہوئے ہونٹوں کے مہکتے شعلے
اور بھی تیز ہوئے
کب چھلک جائے نہ جانے تری لبریز وفا آنکھوں سے
مہر کی مے
کب نکل آئے ترے پیار کا چاند
توڑ دے حلقۂ زنجیر شب و روز
کہ یہ سلسلۂ کرب و الم ختم تو ہو
اور ہو جائے جنوں آوارہ
تو مرے حلقۂ آغوش میں آ
نظم
جز تری آنکھوں کے
مخدومؔ محی الدین