کھلی آنکھ سے دیکھ لیے خواب پینسٹھ سال
اور اب میں جاگ جانے کو کہوں تو جرم
اب میں چپ رہوں تو گناہ کچھ کہوں تو جرم
سہوں تو اپنی نظروں سے گرا نہ سہوں تو جرم
کھیل سیاست کے ہیں یہ لاشیں یہ جلتی بستیاں
چپ رہوں تو غدار وطن کا سچ کہوں تو جرم
فرق کبھی ختم نہیں ہوگا محل اور جھونپڑی کا
اگر وہ کہیں تو غضب تقریر میں کہوں تو جرم
کہہ بھی دے کہ تو زندہ لاش ہے انسان نہیں
پھر تجھے حالات سے لڑنے کو کہوں تو جرم
نظم
جرم
مادھو اوانہ