یہ شام شام اودھ نہیں ہے جسے تمہاری سیاہ زلفیں چھپا سکیں گی
یہ صبح صبح طرب نہیں ہے
یہ اک دھندلکا ہے ایک کہرا
ابھرتے سورج کی گرم کرنوں کے خواب سیال ہو گئے ہیں
زمین اپنی رگوں کی گرمی لٹا چکی ہے
حیات آنسو بہا رہی ہے
ہر ایک برگ و ثمر پہ موتی جھلک رہے ہیں
تم اپنے آنچل پہ بزم پرویں سجا چکی ہو
تم اپنے انفاس کے جلو میں ہزاروں غنچے کھلا چکی ہو
خرام نازک کی ساحری سے زمیں کو جنت بنا چکی ہو
تم اک تبسم سے کتنی شمعیں جلا چکی ہو
مگر یہ شام اودھ نہیں ہے
کہ شمع اب تک جلی نہیں ہے
یہ صبح صبح طرب نہیں ہے
کہ شمع اب تک بجھی نہیں ہے
یہ وقت کا اک عجیب لمحہ ہے جس کی شریانوں میں خون جمنے لگا ہے
یہ ایک افسون دلبری ہے
نہ صبح وصلت نہ شام ہجراں
نہ بوئے یوسف نہ چاک داماں
تمہارے آنچل کی بزم پرویں اجڑ چکی ہے
تمہاری موج یقیں سے کتنے گلوں کے چہرے اتر گئے ہیں
تمہارے قدموں کی آہٹوں نے چمن کو ویراں بنا دیا ہے
نظم
جمود
اختر پیامی