یہ مست مست گھٹا، یہ بھری بھری برسات
تمام حد نظر تک گھلاوٹوں کا سماں
فضائے شام میں ڈورے سے پڑتے جاتے ہیں
جدھر نگاہ کریں کچھ دھواں سا اٹھتا ہے
دہک اٹھا ہے طراوت کی آنچ سے آکاش
ز فرش تا فلک انگڑائیوں کا عالم ہے
یہ مد بھری ہوئی پروائیاں سنکتی ہوئی
جھنجھوڑتی ہے ہری ڈالیوں کو سرد ہوا
یہ شاخسار کے جھولوں میں پینگ پڑتے ہوئے
یہ لاکھوں پتیوں کا ناچنا یہ رقص نبات
یہ بے خودئ مسرت یہ والہانہ رقص
یہ تال سم یہ چھما چھم کہ کان بجتے ہیں
ہوا کے دوش پہ کچھ اودی اودی شکلوں کی
نشے میں چور سی پرچھائیاں تھرکتی ہوئی
افق پہ ڈوبتے دن کی جھپکتی ہیں آنکھیں
خموش سوز دروں سے سلگ رہی ہے یہ شام!
مرے مکان کے آگے ہے ایک چوڑا صحن وسیع
کبھی وہ ہنستا نظر آتا ہے کبھی وہ اداس
اسی کے بیچ میں ہے ایک پیڑ پیپل کا
سنا ہے میں نے بزرگوں سے یہ کہ عمر اس کی
جو کچھ نہ ہوگی تو ہوگی قریب چھیانوے سال
چھڑی تھی ہند میں جب پہلی جنگ آزادی
جسے دبانے کے بعد اس کو غدر کہنے لگے
یہ اہل ہند بھی ہوتے ہیں کس قدر معصوم
وہ دار و گیر وہ آزادیٔ وطن کی جنگ
وطن سے تھی کہ غنیم وطن سے غداری
بپھر گئے تھے ہمارے وطن کے پیر و جواں
دیار ہند میں رن پڑ گیا تھا چار طرف
اسی زمانے میں کہتے ہیں میرے دادا نے
جب ارض ہند سنچی خون سے ''سپوتوں'' کے
میان صحن لگایا تھا لا کے اک پودا
جو آب و آتش و خاک و ہوا سے پلتا ہوا
خود اپنے قد سے بہ جوش نمو نکلتا ہوا
فسون روح بناتی رگوں میں چلتا ہوا
نگاہ شوق کے سانچوں میں روز ڈھلتا ہوا
سنا ہے راویوں سے دیدنی تھی اس کی اٹھان
ہر اک کے دیکھتے ہی دیکھتے چڑھا پروان
وہی ہے آج یہ چھتنار پیڑ پیپل کا
وہ ٹہنیوں کے کمنڈل لئے جٹادھاری
زمانہ دیکھے ہوئے ہے یہ پیڑ بچپن سے
رہی ہے اس کے لئے داخلی کشش مجھ میں
رہا ہوں دیکھتا چپ چاپ دیر تک اس کو
میں کھو گیا ہوں کئی بار اس نظارے میں
وہ اس کی گہری جڑیں تھیں کہ زندگی کی جڑیں؟
پس سکون شجر کوئی دل دھڑکتا تھا
میں دیکھتا تھا اسے ہستیٔ بشر کی طرح
کبھی اداس کبھی شادماں کبھی گمبھیر
فضا کا سرمئی رنگ اور ہو چلا گہرا
گھلا گھلا سا فلک ہے دھواں دھواں سی ہے شام
ہے جھٹپٹا کہ کوئی اژدہا ہے مائل خواب
سکوت شام میں درماندگی کا عالم ہے
رکی رکی سی کسی سوچ میں ہے موج صبا
رکی رکی سی صفیں ملگجی گھٹاؤں کی
اتار پر ہے سر صحن رقص پیپل کا
وہ کچھ نہیں ہے اب اک جنبش خفی کے سوا
خود اپنی کیفیت نیلگوں میں ہر لحظہ
یہ شام ڈوبتی جاتی ہے چھپتی جاتی ہے
حجاب وقت سرے سے ہے بے حس و حرکت
رکی رکی دل فطرت کی دھڑکنیں یک لخت
یہ رنگ شام کہ گردش ہی آسماں میں نہیں
بس ایک وقفۂ تاریک، لمحۂ شہلا
سما میں جنبش مبہم سی کچھ ہوئی فوراً
تلی گھٹا کے تلے بھیگے بھیگے پتوں سے
ہری ہری کئی چنگاریاں سی پھوٹ پڑیں
کہ جیسے کھلتی جھپکتی ہوں بے شمار آنکھیں
عجب یہ آنکھ مچولی تھی نور و ظلمت کی
سہانی نرم لویں دیتے ان گنت جگنو
گھنی سیاہ خنک پتیوں کے جھرمٹ سے
مثال چادر شب تاب جگمگانے لگے
کہ تھرتھراتے ہوئے آنسوؤں سے ساغر شام
چھلک چھلک پڑے جیسے بغیر سان گمان
بطون شام میں ان زندہ قمقموں کی دمک
کسی کی سوئی ہوئی یاد کو جگاتی تھی
وہ بے پناہ گھٹا وہ بھری بھری برسات
وہ سین دیکھ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں
مری حیات نے دیکھی ہیں بیس برساتیں
مرے جنم ہی کے دن مر گئی تھی ماں میری
وہ ماں کہ شکل بھی جس ماں کی میں نہ دیکھ سکا
جو آنکھ بھر کے مجھے دیکھ بھی سکی نہ وہ ماں
میں وہ پسر ہوں جو سمجھا نہیں کہ ماں کیا ہے
مجھے کھلائیوں اور دائیوں نے پالا تھا
وہ مجھ سے کہتی تھیں جب گھر کے آتی تھی برسات
جب آسمان میں ہر سو گھٹائیں چھاتی تھیں
بوقت شام جب اڑتے تھے ہر طرف جگنو
دیئے دکھاتے ہیں یہ بھولی بھٹکی روحوں کو
مزہ بھی آتا تھا مجھ کو کچھ ان کی باتوں میں
میں ان کی باتوں میں رہ رہ کے کھو بھی جاتا تھا
پر اس کے ساتھ ہی دل میں کسک سی ہوتی تھی
کبھی کبھی یہ کسک ہوک بن کے اٹھتی تھی
یتیم دل کو مرے یہ خیال ہوتا تھا!
یہ شام مجھ کو بنا دیتی کاش اک جگنو
تو ماں کی بھٹکی ہوئی روح کو دکھاتا راہ
کہاں کہاں وہ بچاری بھٹک رہی ہوگی
کہاں کہاں مری خاطر بھٹک رہی ہوگی
یہ سوچ کر مری حالت عجیب ہو جاتی
پلک کی اوٹ میں جگنو چمکنے لگتے تھے
کبھی کبھی تو مری ہچکیاں سی بندھ جاتیں
کہ ماں کے پاس کسی طرح میں پہنچ جاؤں
اور اس کو راہ دکھاتا ہوا میں گھر لاؤں
دکھاؤں اپنے کھلونے دکھاؤں اپنی کتاب
کہوں کہ پڑھ کے سنا تو مری کتاب مجھے
پھر اس کے بعد دکھاؤں اسے میں وہ کاپی
کہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنی تھیں کچھ جس میں
یہ حرف تھے جنہیں میں نے لکھا تھا پہلے پہل
اور اس کو راہ دکھاتا ہوا میں گھر لاؤں
دکھاؤں پھر اسے آنگن میں وہ گلاب کی بیل
سنا ہے جس کو اسی نے کبھی لگایا تھا
یہ جب کہ بات ہے جب میری عمر ہی کیا تھی
نظر سے گزری تھیں کل چار پانچ برساتیں
گزر رہے تھے مہ و سال اور موسم پر
ہمارے شہر میں آتی تھی گھر کے جب برسات
جب آسمان میں اڑتے تھے ہر طرف جگنو
ہوا کی موج رواں پر دیئے جلائے ہوئے
فضا میں رات گئے جب درخت پیپل کا!
ہزاروں جگنوؤں سے کوہ طور بنتا تھا
ہزاروں وادیٔ ایمن تھیں جس کی شاخوں میں
یہ دیکھ کر مرے دل میں یہ ہوک اٹھتی تھی
کہ میں بھی ہوتا انہیں جگنوؤں میں اک جگنو
تو ماں کی بھٹکی ہوئی روح کو دکھاتا راہ
وہ ماں میں جس کی محبت کے پھول چن نہ سکا
وہ ماں میں جس سے محبت کے بول سن نہ سکا
وہ ماں کہ بھینچ کے جس کو کبھی میں سو نہ سکا
میں جس کے آنچلوں میں منہ چھپا کے رو نہ سکا
وہ ماں کہ گھٹنوں سے جس کے کبھی لپٹ نہ سکا
وہ ماں کہ سینے سے جس کے کبھی چمٹ نہ سکا
ہمک کے گود میں جس کی کبھی میں چڑھ نہ سکا
میں زیر سایۂ امید جس کے بڑھ نہ سکا
وہ ماں میں جس سے شرارت کی داد پا نہ سکا
میں جس کے ہاتھوں محبت کی مار کھا نہ سکا
سنوارا جس نے نہ میرے جھنڈولے بالوں کو
بسا سکی نہ جو ہونٹوں سے سونے گالوں کو
جو میری آنکھوں میں آنکھیں کبھی نہ ڈال سکی
نہ اپنے ہاتھوں سے مجھ کو کبھی اچھال سکی
وہ ماں جو کوئی کہانی مجھے سنا نہ سکی
مجھے سلانے کو جو لوریاں بھی گا نہ سکی
وہ ماں جو دودھ بھی اپنا مجھے پلا نہ سکی
وہ ماں جو ہاتھ سے اپنے مجھے کھلا نہ سکی
وہ ماں گلے سے مجھے جو کبھی لگا نہ سکی
وہ ماں جو دیکھتے ہی مجھ کو مسکرا نہ سکی
کبھی جو مجھ سے مٹھائی چھپا کے رکھ نہ سکی
کبھی جو مجھ سے دہی بھی بچا کے رکھ نہ سکی
میں جس کے ہاتھ میں کچھ دیکھ کر ڈہک نہ سکا
پٹک پٹک کے کبھی پاؤں میں ٹھنک نہ سکا
کبھی نہ کھینچا شرارت سے جس کا آنچل بھی
رچا سکی مری آنکھوں میں جو نہ کاجل بھی
وہ ماں جو میرے لئے تتلیاں پکڑ نہ سکی
جو بھاگتے ہوئے بازو مرے جکڑ نہ سکی
بڑھایا پیار کبھی کر کے پیار میں نہ کمی
جو منہ بنا کے کسی دن نہ مجھ سے روٹھ سکی
جو یہ بھی کہہ نہ سکی جا نہ بولوں گی تجھ سے
جو ایک بار خفا بھی نہ ہو سکی مجھ سے
وہ جس کو جوٹھا لگا منہ کبھی دکھا نہ سکا
کثافتوں پہ مری جس کو پیار آ نہ سکا
جو مٹی کھانے پہ مجھ کو کبھی نہ پیٹ سکی
نہ ہاتھ تھام کے مجھ کو کبھی گھسیٹ سکی
وہ ماں جو گفتگو کی رو میں سن کے میری بڑ
کبھی جو پیار سے مجھ کو نہ کہہ سکی گھامڑ
شرارتوں سے مری جو کبھی الجھ نہ سکی
حماقتوں کا مری فلسفہ سمجھ نہ سکی
وہ ماں کبھی جسے چونکانے کو میں لک نہ سکا
میں راہ چھینکنے کو جس کے آگے رک نہ سکا
جو اپنے ہاتھ سے بہروپ میرے بھر نہ سکی
جو اپنی آنکھوں کو آئینہ میرا کر نہ سکی
گلے میں ڈالی نہ باہوں کی پھول مالا بھی
نہ دل میں لوح جبیں سے کیا اجالا بھی
وہ ماں کبھی جو مجھے بدھیاں پہنا نہ سکی
کبھی مجھے نئے کپڑوں سے جو سجا نہ سکی
وہ ماں نہ جس سے لڑکپن کے جھوٹ بول سکا
نہ جس کے دل کے دراں کنجیوں سے کھول سکا
وہ ماں میں پیسے بھی جس کے کبھی چرا نہ سکا
سزا سے بچنے کو جھوٹی قسم بھی کھا نہ سکا
وہ ماں کہ آیت رحمت ہے جس کی چین جبیں
وہ ماں کہ ہاں سے بھی ہوتی ہے بڑھ کے جس کی نہیں
دم عتاب جو بنتی فرشتہ رحمت کا
جو راگ چھیڑتی جھنجھلا کے بھی محبت کا
وہ ماں کہ گھڑکیاں بھی جس کے گیت بن جائیں
وہ ماں کہ جھڑکیاں بھی جس کی پھول برسائیں
وہ ماں ہم اس سے جو دم بھر کو دشمنی کر لیں
تو یہ نہ کہہ سکے اب آؤ دوستی کر لیں
کبھی جو سن نہ سکی میری توتلی باتیں
جو دے سکی نہ کبھی تھپڑوں کی سوغاتیں
وہ ماں بہت سے کھلونے جو مجھ کو دے نہ سکی
خراج سر خوشئ سرمدی جو لے نہ سکی
وہ ماں میں جس سے لڑائی کبھی نہ ٹھان سکا
وہ ماں میں جس پہ کبھی مٹھیاں نہ تان سکا
وہ میری ماں میں کبھی جس کی پیٹھ پر نہ چڑھا
وہ میری ماں کبھی کچھ جس کے کان میں نہ رکھا
وہ ماں کبھی جو مجھے کردھنی پنہا نہ سکی
جو تال ہاتھ سے دے کر مجھے نچا نہ سکی
جو میرے ہاتھ سے اک دن دوا بھی پی نہ سکی
کہ مجھ کو زندگی دینے میں جان ہی دے دی
وہ ماں نہ دیکھ سکا زندگی میں جس کی چاہ
اسی کی بھٹکتی ہوئی روح کو دکھاتا راہ
یہ سوچ سوچ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں
تو جا کے سونے بچھونے پہ لیٹ رہتا تھا
کسی سے گھر میں نہ راز اپنے دل کے کہتا تھا
یتیم تھی مری دنیا، یتیم میری حیات
یتیم شام و سحر تھی، یتیم تھے شب و روز
یتیم میری پڑھائی تھی میرے کھیل یتیم
یتیم میری مسرت تھی میرا غم بھی یتیم
یتیم آنسوؤں سے تکیہ بھیگ جاتا تھا
کسی سے گھر میں نہ کہتا تھا اپنے دل کا بھید
ہر اک سے دور اکیلا اداس رہتا تھا
کسی شمائل نادیدہ کو میں تکتا تھا
میں ایک وحشت بے نام سے ہڑکتا تھا
گزر رہے تھے مہ و سال اور موسم پر
اسی طرح کئی برساتیں آئیں اور گئیں
میں رفتہ رفتہ پہنچنے لگا بہ سن شعور
تو جگنوؤں کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی
اب ان کھلائیوں اور دائیوں کی باتوں پر
مرا یقیں نہ رہا مجھ پہ ہو گیا ظاہر
کہ بھٹکی روحوں کو جگنو نہیں دکھاتے چراغ
وہ من گھڑت سی کہانی تھی اک فسانہ تھا
وہ بے پڑھی لکھی کچھ عورتوں کی تھی بکواس
بھٹکتی روحوں کو جگنو نہیں دکھاتے چراغ
یہ کھل گیا مرے بہلانے کو تھیں یہ باتیں
مرا یقیں نہ رہا ان فضول قصوں پر
ہمارے شہر میں آتی ہیں اب بھی برساتیں
ہمارے شہر پر اب بھی گھٹائیں چھاتی ہیں
ہنوز بھیگی ہوئی سرمئی فضاؤں میں
خطوط نور بناتی ہیں جگنوؤں کی صفیں
فضائے تیرہ میں اڑتی ہوئی یہ قندیلیں
مگر میں جان چکا ہوں اسے بڑا ہو کر
کسی کی روح کو جگنو نہیں دکھاتے راہ
کہا گیا تھا جو بچپن میں مجھ سے جھوٹ تھا سب
مگر کبھی کبھی حسرت سے دل میں کہتا ہوں
یہ جانتے ہوئے جگنو نہیں دکھاتے چراغ
کسی کی بھٹکتی ہوئی روح کو مگر پھر بھی
وہ جھوٹ ہی سہی کتنا حسین جھوٹ تھا وہ
جو مجھ سے چھین لیا عمر کے تقاضے نے
میں کیا بتاؤں وہ کتنی حسین دنیا تھی
جو بڑھتی عمر کے ہاتھوں نے چھین لی مجھ سے
سمجھ سکے کوئی اے کاش عہد طفلی کو
جہان دیکھنا مٹی کے ایک ریزے کو
نمود لالۂ خود رو میں دیکھنا جنت
کرے نظارۂ کونین اک گھروندے میں
اٹھا کے رکھ لے خدائی کو جو ہتھیلی پر
کرے دوام کو جو قید ایک لمحے میں
سنا؟ وہ قادر مطلق ہے ایک ننھی سی جان
خدا بھی سجدے میں جھک جائے سامنے اس کے
یہ عقل و فہم بڑی چیز ہیں مجھے تسلیم
مگر لگا نہیں سکتے ہم اس کا اندازہ
کہ آدمی کو یہ پڑتی ہیں کس قدر مہنگی
اک ایک کر کے وہ طفلی کے ہر خیال کی موت
بلوغ سن میں وہ صدمے نئے خیالوں کے
نئے خیال کا دھچکا نئے خیال کی ٹیس
نئے تصوروں کا کرب، الاماں کہ حیات
تمام زخم نہاں ہے تمام نشتر ہے
یہ چوٹ کھا کے سنبھلنا محال ہوتا ہے
سکوت رات کا جس وقت چھیڑتا ہے ستار
کبھی کبھی تری پائل کی آتی ہے جھنکار
تو میری آنکھوں سے موتی برسنے لگتے ہیں
اندھیری رات کے پرچھاویں ڈسنے لگتے ہیں
میں جگنو بن کے تو تجھ تک پہنچ نہیں سکتا
جو تجھ سے ہو سکے اے ماں تو وہ طریقہ بتا
تو جس کو پا لے وہ کاغذ اچھال دوں کیسے
یہ نظم میں ترے قدموں میں ڈال دوں کیسے
نوائے درد سے کچھ جی تو ہو گیا ہلکا
مگر جب آتی ہے برسات کیا کروں اس کو
جب آسمان میں اڑتے ہیں ہر طرف جگنو
شراب نور لئے سبز آبگینوں میں
کنول جلاتے ہوئے ظلمتوں کے سینوں میں
جب ان کی تابش بے ساختہ سے پیپل کا
درخت سرو چراغاں کو مات کرتا ہے
نہ جانے کس لئے آنکھیں مری بھر آتی ہیں
نظم
جگنو
فراق گورکھپوری