نگار شام غم میں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہوں
گلے مل لے کہ یوں ملنے کی نوبت پھر نہ آئے گی
سر راہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا
یہ لمحے پھر نہ لوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی
کہ میں اب صرف ان گزرے ہوئے لمحوں کا سایہ ہوں
اسی بازار میں بارہ برس ہونے کو آئے ہیں
کہ میں نے فاسٹس کی طرح اپنی روح بیچی تھی
مسرت کی مسلسل گردش یکساں سے اکتا کر
تجھے حاصل کیا تھا اور ہر صورت بھلا دی تھی
پرانے ساز و ساماں اب مجھے رونے کو آئے ہیں
غضب کی تیرگی ہے راستہ دیکھا نہیں جاتا
ہوا کے شور میں دریا کی موجیں بڑھتی جاتی ہیں
زمیں سے اکھڑے جاتے ہیں درختوں کے قدم پیہم
چٹانیں روپ بدلے زیر لب کچھ پڑھتی جاتی ہیں
اب اپنی انگلیوں کا فاصلہ دیکھا نہیں جاتا
جرس کی نغمگی آواز ماتم ہوتی جاتی ہے
وہی معمول کے بت ہیں وہی لمحوں کی ویرانی
ذرا سی دیر میں یہ دھڑکنیں بھی ڈوب جائیں گی
مری آنکھوں تک آ پہنچا ہے اب بہتا ہوا پانی
تری آواز مدھم اور مدھم ہوتی جاتی ہے
نظم
جدائی
مصطفی زیدی