EN हिंदी
جدائی | شیح شیری
judai

نظم

جدائی

فراق گورکھپوری

;

شجر حجر پہ ہیں غم کی گھٹائیں چھائی ہوئی
سبک خرام ہواؤں کو نیند آئی ہوئی

رگیں زمیں کے مناظر کی پڑ چلیں ڈھیلی
یہ خستہ حالی یہ درماندگی یہ سناٹا

فضائے نیم شبی بھی ہے سنسنائی ہوئی
دھواں دھواں سے مناظر ہیں شبنمستاں کے

سیارہ رات کی زلفیں ہیں رسمسائی ہوئی
یہ رنگ تاروں بھری رات کے تنفس کا

کہ بوئے درد میں ہر سانس ہے بسائی ہوئی
خنک اداس فضاؤں کی آنکھوں میں آنسو

ترے فراق کی یہ ٹیس ہے اٹھائی ہوئی
سکوت نیم شبی گہرا ہوتا جاتا ہے

رگیں ہیں سینۂ ہستی کی تلملائی ہوئی
ہے آج ساز نوا ہائے خونچکاں اے دوست

حیات تیری جدائی کی چوٹ کھائی ہوئی
مری ان آنکھوں سے اب نیند پردہ کرتی ہے

جو تیرے پنجۂ رنگیں کی تھیں جگائی ہوئی
سرشک پالے ہوئے تیرے نرم دامن کے

نشاط تیرے تبسم سے جگمگائی ہوئی
لٹک وہ گیسوؤں کی جیسے پیچ و تاب کمند

لچک بھوؤں کی وہ جیسے کماں جھکائی ہوئی
سحر کا جیسے تبسم دمک وہ ماتھے کی

کرن سہاگ کی بندی کی لہلہائی ہوئی
وہ انکھڑیوں کا فسوں روپ کی وہ دیوئیت

وہ سینہ روح نمو جس میں کنمنائی ہوئی
وہ سیج سانس کی خوشبو کو جس پہ نیند آئے

وہ قد گلاب کی اک شاخ لہلہائی ہوئی
وہ جھلملاتے ستارے ترے پسینے کے

جبین شام جوانی تھی جگمگائی ہوئی
ہو جیسے بت کدہ آذر کا بول اٹھنے کو

وہ کوئی بات سی گویا لبوں تک آئی ہوئی
وہ دھج وہ دلبری وہ کام روپ آنکھوں کا

سجل اداؤں میں وہ راگنی رچائی ہوئی
ہو خواب گاہ میں شعلوں کی کروٹیں دم صبح

وہ بھیرویں تری بیداریوں کی گائی ہوئی
وہ مسکراتی ہوئی لطف دید کی صبحیں

تری نظر کی شعاعوں کی گدگدائی ہوئی
لگی جو تیرے تصور کے نرم شعلوں سے

حیات عشق سے اس آنچ کی تپائی ہوئی
ہنوز وقت کے کانوں میں چہچہاہٹ ہے

وہ چاپ تیرے قدم کی سنی سنائی ہوئی
ہنوز سینۂ ماضی میں جگمگاہٹ ہے

دمکتے روپ کی دیپاولی جلائی ہوئی
لہو میں ڈوبی امنگوں کی موت روک ذرا

حریم دل میں چلی آتی ہے ڈھٹائی ہوئی
رہے گی یاد جواں بیوگی محبت کی

سہاگ رات کی وہ چوڑیاں بڑھائی ہوئی
یہ میری پہلی محبت نہ تھی مگر اے دوست

ابھر گئی ہیں وہ چوٹیں دبی دبائی ہوئی
سپردگی و خلوص نہاں کے پردے میں

جو تیری نرم نگاہی کی تھیں بٹھائی ہوئی
اٹھا چکا ہوں میں پہلے بھی ہجر کے صدمے

وہ سانس دکھتی ہوئی آنکھ ڈبڈبائی ہوئی
یہ حادثہ ہے عجب تجھ کو پا کے کھو دینا

یہ سانحہ ہے غضب تیری یاد آئی ہوئی
عجیب درد سے کوئی پکارتا ہے تجھے

گلا رندھا ہوا آواز تھر تھرائی ہوئی
کہاں ہے آج تو اے رنگ و نور کی دیوی

اندھیری ہے مری دنیا لٹی لٹائی ہوئی
پہنچ سکے گی بھی تجھ تک مری نوائے فراق

جو کائنات کے اشکوں میں ہے نہائی ہوئی