EN हिंदी
جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا | شیح شیری
jo yun hota to kya hota

نظم

جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا

محمد انور خالد

;

یہ مصدر اسم ماضی کا نہیں ہے
آپ کہیے تو بتا دیتے ہیں ہونے کو

جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

وہ تم سے ابن ملجم کا پتا پوچھیں تو کہنا
چار ہفتوں سے بہت مصروف ہے

روٹی نہیں کھائی
سروں کی فصل بار خشک سالی سے گراں ہے

لوگ مسجد بھی نہیں جاتے
میں اس کو مسجد ضرار کے باہر ملوں گا

وہ گھوڑوں کی طرح تھے
فربہ اندامی پہ مائل

ساتھ والی کھڑکیوں پر ہنہناتے تھے
اب ان کے نعل ٹھونکی جا رہی ہے

میرا گھر جانا ضروری ہے
کہ ایسے میں ہمیشہ چھٹیوں کا کال ہوتا ہے

چلو گھر کی طرف چلتے ہیں
باہر برف باری ہے

میں تم پر نظم لکھوں گا
محبت لڑکیوں کو اصطبل میں چھوڑ آتی ہے

میں تم کو بیچ کھڑکی میں بٹھا کر نظم لکھوں گا
تمہیں آتا تو ہوگا درمیاں سے لوٹنا

میں لوٹنے پر نظم لکھوں گا
یہ مصدر اسم ماضی کا نہیں ہے

تم جو کہہ دو تو بلا لیتے ہیں گھر سے ابن ملجم کو
مجھے اپنی زمین اصطبل کی قسط دینی ہے

اسے بھی کوئی صورت چاہیے گھر سے نکلنے کی