مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی
بھلا کیا تھا مرے اس دوسری جانب
مجھے کیسے خبر ہوتی
مری سب آرزوئیں خواہشیں ادراک کے منظر
مرے اس اک طرف تھے
دوسری جانب خلا تھا
یا مجھے ایسا لگا تھا
کوئی روزن دریچہ کوئی دروازہ
اگر تھا بھی تو بس
اس ایک ہی جانب کھلا تھا
جس طرف خوابوں کا رستہ تھا
مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی
جہاں تم تھے
مگر یہ بات بھی تو ہے
تمہارے اس طرف کیا تھا
مجھے کیسے خبر ہوتی
مجھے یہ بھی خبر کب تھی
مجھے کچھ بھی پتا کب تھا
نظم
جو رہی سو بے خبری رہی
عنبرین صلاح الدین