EN हिंदी
جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے | شیح شیری
jo log raaton ko jagte the

نظم

جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے

اسعد بدایونی

;

ستارے جتنے بھی آسماں پر
مری تمنا کے ضوفشاں تھے

زمیں کے اندر اتر گئے ہیں
جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے وہ مر گئے ہیں

وہ پھول وہ تتلیاں کہ جن سے
بہار کی دل کشی سوا تھی

وہ رزق خاشاک بن چکے تھے
تمام منظر تمام چہرے جو دھیرے دھیرے سلگ رہے تھے

سو اب وہ سب راکھ بن چکے ہیں
میں رفتگاں کی اداس یادوں کے سائے میں دن گزارتا ہوں

اگرچہ خوابوں کا پیرہن تار تار سا ہے
پہ میں اسے کب اتارتا ہوں

مری صدا کا جواب اب کوئی بھی نہ دے گا
یہ جانتا ہوں مگر مسلسل کسی کو اب تک پکارتا ہوں

عجیب یہ کھیل ہے کہ جس کو نہ جیتتا ہوں نہ ہارتا ہوں
مری کہانی میں کوئی شے بھی نئی نہیں ہے

یہ ننھے منے حسین خوابوں سے ہے عبارت
مری کہانی میں نرم دن خوش گوار شاموں

اداس راتوں کی ایک رو ہے
وجود میرا کسی دیئے کی حقیر لو ہے

میں یوں تو کہنے کو عقل و منطق کے دور کا آدمی ہوں لیکن
مرا رویہ ہے زندگی کو گزارنے کا بہت پرانا

میں سوچتا ہوں کہ اک صدی قبل پیدا ہوتا تو ٹھیک رہتا
کہ مجھ سے کوئی بھی کچھ نہ کہتا

جو خاک کا رزق ہو چکے ہیں
میں ان زمانوں کا نوحہ گر ہوں

وصال و ہجراں کی داستانوں کا نوحہ گر ہوں
جنہیں یہ دنیا ہزار ہا بار سن چکی ہے