EN हिंदी
جو خود میں تشکیل ہو رہا ہے | شیح شیری
jo KHud mein tashkil ho raha hai

نظم

جو خود میں تشکیل ہو رہا ہے

منموہن تلخ

;

کبھی کبھی مجھ کو جان پڑتا ہے
جیسے مجھ میں

گھرا ہوا پربتوں سے
خالی سا اک محل ہو

جہاں کبھی
بدھ کے علم کا اک خزانہ تھا

جس جگہ
شلوک اور منتر ماحول میں

نہیں
خود مرے ہی اندر

مری صدا میں
ہمالیائی ہواؤں کی طرح گونجتے تھے

عجیب عظمت کے ساتھ میں یوں الگ تھلک تھا
کہ جس طرح میری موت کی بات

قرنہا قرن سے ہے وہ راز
میں ہی بس جس کو جانتا ہوں

میں اپنے اندر وہ آتما ہوں
جسے کبھی

اک عظیم پیشین گوئی کا سل بے سماعت
محل سمیت آسمان میں لے اڑا تھا

یا پھر
میں اک تناؤ ہوں

آسمانوں کی سمت
بچپن کے حیرت انگیز خواب کے بے بنے محل سا

جہاں مرے چاروں سمت راہیں
سفید ریت اور برف کی

اپنی اپنی حد سے
مری طرف بڑھ رہی ہیں

جیسے
میں دیوتاؤں کا ہوں وہ مسکن

جو سب کو اپنی طرف بلاتا ہے اور
سب کی پہنچ سے کچھ اس طرح پرے ہے

کہ جیسے میں دیکھنے کی حد ہوں
میں ایک پربت ہوں

وادیاں جس نے بانٹ دی ہیں
میں اک گپھا ہوں

جو وادیوں کو ملا رہی ہے
میں جیسے صدیوں کی یاترا کی وہ گہری آواز ہوں جو اب تک

گپھا کے اندر سے آ رہی ہے
میں ایک بھکشو ہوں

جو کبھی کا
اسی گپھا میں سما چکا ہے

جو خود میں تشکیل ہو رہا تھا
جو خود میں تشکیل ہو رہا ہے