جو بازار چہکتا تھا ہر شام
آج کچھ سنسان سا لگ رہا ہے
گول گپے کی دکان کا ٹھیلہ
جلیبی والے کے چولھے پر سے برتن
چائے پے چسکیاں لیتے لوگ
کوئی بھی آج نظر نہیں آ رہا
نالیوں میں لال رنگ بہہ رہا ہے
پتا چلا رنگ نہیں
پتا چلا رنگ نہیں
یہ ہندو مسلمان کا خون ہے
کل دھرم کے نام پر فساد ہوا
سنتا ہوں
وہ جلیبی والا میاں تھا
گول گپے والا ہندو تھا
مجھے کیسے پتہ چلتا
جلیبیوں نے کبھی اذان نہیں پڑھی
گول گپے نے کبھی گیتا نہیں سنائی
جو بازار چہکتا تھا ہر شام
آج کچھ سنسان سا لگ رہا ہے
نظم
جو بازار چہکتا تھا ہر شام
کمل اپادھیائے