EN हिंदी
جس بھی روح کا | شیح شیری
jis bhi ruh ka

نظم

جس بھی روح کا

مجید امجد

;

جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاؤ۔۔۔ نیچے اک
منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے

ہم سمجھتے تھے گھرتے امڈتے بادلوں کے نیچے جب ٹھنڈی ہوا چلے گی
دن بدلیں گے

لیکن اب دیکھا ہے گھنے گھنے سایوں کے نیچے
زندگیوں کی سلسبیلوں میں

ڈھکی ڈھکی جن نالیوں سے پانی آ آ کر گرتا ہے
سب زیر زمین نظاموں کی نیلی کڑیاں ہیں

سب تملیکیں ہیں سب تذلیلیں ہیں
کون سہارا دے گا ان کو جن کے لیے سب کچھ اک کرب ہے

کون سہارا دے گا ان کو جن کا سہارا آسمانوں کے خلاؤں میں بکھرا ہوا
دھندلا دھندلا اک عکس ہے

میں ان عکسوں کا عکاس ہوں