جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاؤ۔۔۔ نیچے اک
منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے
ہم سمجھتے تھے گھرتے امڈتے بادلوں کے نیچے جب ٹھنڈی ہوا چلے گی
دن بدلیں گے
لیکن اب دیکھا ہے گھنے گھنے سایوں کے نیچے
زندگیوں کی سلسبیلوں میں
ڈھکی ڈھکی جن نالیوں سے پانی آ آ کر گرتا ہے
سب زیر زمین نظاموں کی نیلی کڑیاں ہیں
سب تملیکیں ہیں سب تذلیلیں ہیں
کون سہارا دے گا ان کو جن کے لیے سب کچھ اک کرب ہے
کون سہارا دے گا ان کو جن کا سہارا آسمانوں کے خلاؤں میں بکھرا ہوا
دھندلا دھندلا اک عکس ہے
میں ان عکسوں کا عکاس ہوں
نظم
جس بھی روح کا
مجید امجد