EN हिंदी
جینے مرنے کے درمیان ایک ساعت | شیح شیری
jine marne ke darmiyan ek saat

نظم

جینے مرنے کے درمیان ایک ساعت

شہزاد احمد

;

کبھی جینے کبھی مرنے کی خواہش روک لیتی ہے
وگرنہ میں ہوا کی لہر میں تحلیل ہو جاؤں

کدھر جاؤں کہ ہر سو ساعتیں رستے کا پتھر ہیں
اگر بیٹھا رہوں تو راکھ میں تبدیل ہو جاؤں

وہ جادوگر تھا جس نے رات پر پہرے بٹھائے تھے
وگرنہ اب تلک یہ چاند تارے مٹ چکے ہوتے

جنون آگہی مانوس آنکھوں سے چھلک جاتا
بساط زندگی کے سارے مہرے پٹ چکے ہوتے

مجھے معلوم ہے اک چاند دن کو بھی نکلتا ہے
مجھے معلوم ہے راتیں بھی اک خورشید رکھتی ہیں

اگر یہ دونوں عالم ایک ہو جائیں تو پھر کیا ہو
ہوائیں رات دن یکتائی کی امید رکھتی ہیں

مگر ان وسعتوں کو کون بانہوں میں سمیٹے گا
کہاں سے آئے گی وہ روشنی جو منتہی ہوگی

دلوں کی تیرگی کچھ اور گہری ہوتی جاتی ہے
اذیت روشنی کی دن کی رگ رگ نے سہی ہوگی

کدھر جاؤں کہ ہر سو راستے کرنوں کی صورت ہیں
مگر کرنوں پہ چلنا بے قراری کو نہیں آتا

وہ نقطہ جس پہ میں ہوں مرقد شام غریباں ہے
مگر اس سمت کوئی آہ و زاری کو نہیں آتا