EN हिंदी
جی ڈرتا ہے | شیح شیری
ji Darta hai

نظم

جی ڈرتا ہے

محمد انور خالد

;

جی ڈرتا ہے بے غرض محبت کرنے والے
اچھی نسل کے دوستوں سے

انہیں دریا بیچ جواب ملا
یہ کشتی چھ شہتیروں اور دس کیلوں سے

یہیں دریا بیچ بنائی تھی
سو اس میں آگ لگی

جی ڈرتا ہے
تمہیں لوٹ کے آنا اچھا لگا

مجھے چھت کی بیلیں ہری ملیں
انہیں دھوپ نہ دینا جاڑوں میں

یہ بستر میرے گھر کے نہیں
تمہیں فکر ہوئی مجھے خوف آیا

سب جاننا اچھا ہوتا ہے مگر اکثر فرق نہیں پڑتا سب جاننے سے
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے

میں جانتا ہوں
مجھے تیرنا آنا چاہیے تھا

بے غرض محبت کرنے والے اچھی نسل کے دوستوں کی ہم راہی میں
مجھے ان سے الگ

کچھ اپنے لیے بھی سوچنا چاہیے تھا
میں جانتا ہوں

یہ آگ اضافی کوشش تھی
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب کشتی ڈوبنے لگتی ہے

اب لوٹ آئے تو فکر کرو
یہ کشتی ڈوب بھی سکتی تھی

یہ بستر بھیگ بھی سکتے تھے
یہ دریا لوٹ بھی سکتا تھا

بے غرض محبت کرنے والے اچھی نسل کے دوستوں کی ہم راہی میں
ہر کام الٹ ہو سکتا تھا