EN हिंदी
جھلسی سی اک بستی میں | شیح شیری
jhulsi si ek basti mein

نظم

جھلسی سی اک بستی میں

ابن انشا

;

ہاں دیکھا کل ہم نے اس کو دیکھنے کا جسے ارماں تھا
وہ جو اپنے شہر سے آگے قریۂ باغ و بہاراں تھا

سوچ رہا ہوں جنگ سے پہلے، جھلسی سی اس بستی میں
کیسا کیسا گھر کا مالک، کیسا کیسا مہماں تھا

سب گلیوں میں ترنجن تھے اور ہر ترنجن میں سکھیاں تھیں
سب کے جی میں آنے والی کل کا شوق فراواں تھا

میلوں ٹھیلوں باجوں گاجوں باراتوں کی دھومیں تھیں
آج کوئی دیکھے تو سمجھے، یہ تو سدا بیاباں تھا

چاروں جانب ٹھنڈے چولھے، اجڑے اجڑے آنگن ہیں
ورنہ ہر گھر میں تھے کمرے، ہر کمرے میں ساماں تھا

اجلی اور پر نور شبیہیں روز نماز کو آتی تھیں
مسجد کے ان طاقوں میں بھی کیا کیا دیا فروزاں تھا

اجڑی منڈی، لاغر کتے، ٹوٹے کھمبے خالی کھیت
کیا اس نہر کے پل کے آگے ایسا شہر خموشاں تھا

آج کہ اک روٹی کی خاطر کارڈ دکھاتا پھرتا ہے
پورے کمپ کو روٹی دے دے ایسا ایسا دہقاں تھا

تاب نہیں ہر ایک سے پوچھیں بابا تجھ پر کیا گزری
ایک کو روک کے پوچھا ہم نے، سینہ اس کا بریاں تھا

بولا لوگ تو آئیں جائیں بستی کو پھر بسنا ہے
میرے تنکوں کی خاطر آیا سارا طوفاں تھا

آگ کے اندر اور تپش ہے، آگ کے باہر اور ہی آنچ
شاید کوئی دوانا ہوگا بے شک چاک گریباں تھا