موجوں کی جوانی میں تلاطم ہے ابھی تک
سیلاب ہوا شورشوں میں گم ہے ابھی تک
بہتے چلے جاتے ہیں یہ مہکے ہوئے دھارے
کرتے ہیں اشارے
ہنستے ہیں نظارے
آباد ہیں اب تک میرے جہلم کے کنارے
اب تک اسی انداز سے ہنستی ہیں فضائیں
اب تک اسی خوشبو سے مہکتی ہیں ہوائیں
آتی ہیں اسی طور گھٹا ٹوپ گھٹائیں
اب تک اسی ماحول میں پلتے ہیں نظارے
چاند اور ستارے
یہ نور کے پارے
آباد ہیں اب تک مرے جہلم کے کنارے
پنگھٹ پہ جواں لڑکیاں آتی ہیں ابھی تک
پریوں کی طرح ناچتی گاتی ہیں ابھی تک
ہنستا ہوا ماحول بساتی ہیں ابھی تک
آنکھوں میں جھلکتے ہیں جوانی کے شرارے
رنگین ستارے
معصوم اشارے
آباد ہیں اب تک مرے جہلم کے کنارے
جامن کے درختوں کی وہی چھاؤں گھنیری
اور ان سے ذرا ہٹ کے مرے کھیت کی بیری
رومان کی دنیا ابھی محفوظ ہے میری
ان سایوں تلے ہم نے کئی پہر گزارے
بستی سے کنارے
کیا دن تھے ہمارے
آباد ہیں اب تک مرے جہلم کے کنارے
دنیا نے نہ دیکھا مرا رنگین فسانہ
جہلم کو مگر یاد ہے شاعر کا فسانہ
پروان چڑھا ہوں انہیں موجوں کے سہارے
دیکھے ہیں نظارے
ہیں ذہن میں سارے
آباد ہیں اب تک مرے جہلم کے کنارے
نظم
جہلم کے کنارے
نذیر مرزا برلاس