مرے کرتے کی بوڑھی جیب سے کل
تمہاری یاد!
چپکے سے نکل کر
سڑک کے شور و غل میں کھو گئی ہے
بڑی بستی ہے
کس کو فکر اتنی!
کہ کس کھولی میں کب سے تیرگی ہے
یہاں
ہر ایک کو اپنی پڑی ہے
نظم
جیب کٹنے کے بعد
ندا فاضلی
نظم
ندا فاضلی
مرے کرتے کی بوڑھی جیب سے کل
تمہاری یاد!
چپکے سے نکل کر
سڑک کے شور و غل میں کھو گئی ہے
بڑی بستی ہے
کس کو فکر اتنی!
کہ کس کھولی میں کب سے تیرگی ہے
یہاں
ہر ایک کو اپنی پڑی ہے