جذبۂ عشاق کام آنے کو ہے
پھر لذیذ و شیریں جام آنے کو ہے
موسم سرما کی آمد مرحبا
کیونکہ اس موسم میں آم آنے کو ہے
ختم ہونے کو ہے وقت انتظار
انتخاب خاص و عام آنے کو ہے
دھیرے دھیرے چلتا لنگڑاتا ہوا
خوش ادا و خوش خرام آنے کو ہے
مقتدی تیار ہوں صف باندھ کر
سب پھلوں کا اب امام آنے کو ہے
قربتوں کا ہوگا اب آغاز پھر
فرقتوں کا اختتام آنے کو ہے
آتے ہی جانے کی تیاری کرے
وہ سوار تیز گام آنے کو ہے
وجد میں یوں گنگناتا ہے اثرؔ
آم آنے کو ہے آم آنے کو ہے
نظم
جذبۂ عشاق کام آنے کو ہے
شاہین اقبال اثر