لٹا دو لٹا دو
یہ افکار و انوار کا
نیم خفتہ خزانہ
امڈتے سمٹتے
تلاطم سے ڈھالو
کوئی درد آگیں فسانہ
مکاں لا مکاں ہے
زماں بے کراں ہے
نہاں ہے
اسی محور آرزو میں
تمہارے خد و خال کا
عکس موہوم
پرواز کا جذبۂ بیکرانہ
گھنی اور بے نور راہوں میں
بناؤ گی کیا آشیانہ
لٹا دو لنڈھا دو
بچی ہے جو اب جام میں
یہ شراب شبانہ
کہ انجام ہستی
فنا کے سمندر میں ہے
ڈوب جانا
نظم
جذبۂ بیکرانہ
زاہدہ زیدی