EN हिंदी
جوانی | شیح شیری
jawani

نظم

جوانی

مخدومؔ محی الدین

;

بے دار ہوئیں مہر جوانی کی شعاعیں
پڑنے لگیں عالم کی اسی سمت نگاہیں

خوابیدہ تھے جذبات بدلنے لگے کروٹ
روئے شرر طور سے ہٹنے لگا گھونگٹ

بھرنے لگے بازو تو ہوئے بند قبا تنگ
چڑھنے لگا طفلی پہ جوانی کا نیا رنگ

ساغر کی کھنک بن گئی اس شوخ کی آواز
بربط کی ہوئی گدگدی یا جاگ اٹھے ساز

اعضا میں لچک ہے تو ہے اک لوچ کمر میں
اعصاب میں پارہ ہے تو بجلی ہے نظر میں

آنے لگی ہر بات پہ رک رک کے ہنسی اب
رنگین تموج سے گراں بار ہوئے لب

وہ دیکھ بدلتے ہوئے پہلو کوئی اٹھا
وہ دیکھ بگاڑے ہوئے گیسو کوئی اٹھا

وہ دیکھ کہ کس گل کی مہک پھیلی ہے ہر سو
وہ دیکھ کہ ہے کون رواں بجتے ہیں گھنگرو

کم بخت اجل تھی یہ جوانی کی قبا میں
ٹکڑے ہیں کسی دل کے بھی نقش کف پا میں