مری بیٹی مری جاناں
تمہیں سب یاد تو ہوگا
بہت پہلے بہت پہلے
جوانی کا تھا جب عالم
مرے بازو میں طاقت تھی
مرے سینے میں ہمت تھی
انہیں ایام میں اک دن
مری آغوش الفت میں
کسی نے لا کے رکھا تھا
تمہارا پھول سا چہرہ
بدن بے انتہا نازک
مرے ان سخت ہاتھوں میں
عجب نرمی سی آئی تھی
مری اس آنکھ نے بو سے لئے تھے اور روئی تھی
مجھے تو یاد ہے سب کچھ
تمہیں بھی یاد تو ہوگا
نئے کپڑے کھلونے دودھ کی بوتل خریدی تھی
بہت بے چین ہوتا تھا جو تم راتوں کو روتی تھیں
چلی تھیں اپنے پیروں پر جو تم پہلے پہل بیٹا
مجھے ایسا لگا تھا چل پڑی دل کی مرے دھڑکن
قدم دو چار لے کر تم جو اک دم لڑکھڑائی تھیں
مری سانسیں مرے سینے کے اندر تھرتھرائی تھیں
مری گودی میں رفتہ رفتہ دن گزرا کئے اور تم
نہ جانے سوتے سوتے میرے سینے پر جوانی تک
مری جاں آج آئی ہو
تمہیں مجھ سے شکایت ہے
کہ میں نے سختیاں کی ہیں
مری وہ سختیاں تم کو بہت رنجور کرتی تھیں
مجھے بھی رنج ہوتا تھا
مگر تھی تربیت لازم
تمہیں سانچے میں ڈھلنا تھا
طبیعت کو بدلنا تھا
تمہیں سب یاد تو ہوگا
مری بیٹی مرے بازو میں وہ قوت نہیں باقی
تمہاری ہر خوشی کی ہیں ضمانت دھڑکنیں میری
مگر اک مشورہ سن لو
کہ اب سب بھول جاؤ تم
نئے رشتے بناؤ تم
ہمارا ساتھ چھوٹے گا
نئے رشتوں کے میری جاں مسائل کم نہیں ہو گے
مگر تب ہم نہیں ہوں گے
اکیلی جان ہوگی تم
فقط وہ تربیت ہوگی
جو میں نے سختیاں کر کے
تمہارے دل میں ڈالی ہے
وہ تم کو یاد تو ہوگی
سبق سب یاد تو ہوگا
نظم
جوان بیٹی سے باپ کا خطاب
عفیف سراج