EN हिंदी
جست | شیح شیری
jast

نظم

جست

خورشید رضوی

;

مرا حال یہ تھا
زمستاں میں جب برف زاروں میں چلتے ہوئے

گرسنہ بھیڑیوں کی قطاریں گزرتیں
تو میں کپکپاتا

یہ جی چاہتا عرصۂ زیست کو چھوڑ کر
کوہساروں کے اس پار ڈیرا لگا لوں

ادھر میرے جاتے ہی برفیں پگھل جائیں
گرگان بے مہر میرے نقوش قدم سونگھ کر مجھ تک آنے نہ پائیں

مگر اب تو جیسے
مری روح میں کوئی چیتا سا انگڑائیاں لے رہا ہے

یہ جی چاہتا ہے
کہ گرگ آشتی کی سبھا جب لگے

میں بھی تصویر جیسی کھلی آنکھ لے کر
جو ہرگز جھپکتی نہ ہو

غار کے وسط میں آن بیٹھوں
اور ان میں سے جس جس کی آنکھیں جھپکتی چلی جائیں

وہ لحظہ لحظہ مرا رزق ہو
میں اسے پارہ پارہ کروں