EN हिंदी
جنگلی ناچ | شیح شیری
jangali nach

نظم

جنگلی ناچ

سلام ؔمچھلی شہری

;

جنگلی لباس میں ایک پیکر گداز
چل رہا ہے جھاڑیوں میں سانپ جھوم جھوم کر

اڑ رہا ہے مور اپنے بال چوم چوم کر
جھیل مانگنے لگی شام کی ہوا سے ساز

ایک بار تین بار
دست صندلی اٹھے

پاؤں لہر کھا گئے
جسم ناز کے شرار

جھیل کے کنارے مست ہو کے ناچنے لگے
جنگلی جوان شام کو سکون پا گئے

جھونپڑوں سے اپنے اپنے ساز لے کے آ گئے
آسماں سے چاند اور ستارے جھانکنے لگے

چاندنی میں جاگ اٹھی
سو رہی تھی صبح سے

بول کیسے خواب تھے؟
میرے ''بدھ'' کی مورتی

جھاڑیوں سے سرخ زرد پھول توڑ توڑ کر
ایک بار تین بار اور اب تو بار بار

مورتی پہ جنگلی حسینہ کرتی ہے نثار
چشم و لب کے رقص پر ہاتھ موڑ موڑ کر

رقص کی شراب میں
مور مست ہو گیا

سانپ جیسے سو گیا
عکس ماہتاب میں

ایک پیکر گداز اور ناچنے لگا
ڈھولکوں کی مست چیخ اور تیز ہو گئی

جنگلی حسینہ اور شعلہ ریز ہو گئی
مورتی کا دیوتا خود ہی مسکرا اٹھا

اور جیسے چونک کر
رقص بند ہو گیا

کس قدر غرور تھا
کامیاب رقص پر