پہاڑی راستوں پر
لکڑیوں کی گٹھریاں سر پر سنبھالے
جا رہا ہے آدی واسی عورتوں کا قافلہ
یہ قافلہ کچھ دور جا کر
گاؤں کے بازار میں ٹھہرے گا
اور پھر لکڑیاں سر سے اتاری جائیں گی
خوب صورت جنگلوں سے کاٹ کر
لائی گئی یہ لکڑیاں
بازار کی زینت بنیں گی
لکڑیوں کا بوجھ ڈھو کر
لانے والی عورتیں
خاموش رہ کر
دل ہی دل میں
اپنے ہٹے کٹے مردوں کی
جواں مردی کے نغمے گائیں گی
اور گاؤں کے بازار سے کچھ دور
ان کے مرد
اپنی تیز کلہاڑی سے
جنگل کا صفایا کرنے میں
مصروف ہوں گے
یہ وہی جنگل ہے جس کا حسن
قائم تھا انہیں شیدائیوں سے
ذرے ذرے میں
اسی جنگل کے گوشے گوشے میں
شیدائیوں کی روح بستی تھی
اسی جنگل میں ان کا جسم لاغر ہو چلا ہے
اور اپنی زندگی کو
باقی رکھنے کا یہی اک راستہ
ان کو نظر آیا ہے
جنگل ختم کر کے خود وہ جینا چاہتے ہیں
ہم ترقی کے ہزاروں دعوے
کرنے والے دانش مند
اندر سے بہت ہی کھوکھلے ہیں
نظم
جنگل کی لکڑیاں
راشد انور راشد