آیا اک ہوا کا جھونکا
یادیں بہت سی لے آیا
رات کے سناٹے کی خوشبو
اجلی صبح کی چہکاریں
سبز ملائم پتوں والے بھیگے تنوں کا تازہ لمس
اونچے گھنے جنگل کے اندر
سانپ سے بل کھاتے رستوں پر
ہونٹوں پہ آنکھوں میں سجائے
جھجک خلش کی تتلی کو
میرا اس کا تنہا سایہ
وہ لمحہ بھی یاد آیا جب
ہم جیسے ہی بھولے بھٹکے
کالے مست سیہ بادل
دھرتی سے ملنے کی خاطر
برس پڑے تھے پیڑوں پر
پھر کیسی ساعت تھی آئی
خوف نہ تھا گم ہونے کا
تنہا تنہا چلنے کا
جنگل میں کھو جانے کا
نظم
جنگل ہم اور کالے بادل
ابو بکر عباد