EN हिंदी
جنگ | شیح شیری
jang

نظم

جنگ

بلراج کومل

;

تیرگی میں بھیانک صدائیں اٹھیں
اور دھواں سا فضاؤں میں لہرا گیا

موت کی سی سپیدی افق تا افق
تلملانے لگی

اور پھر ایک دم
سسکیاں چار سو تھرتھرا کر اٹھیں

ایک ماں سینہ کوبی سے تھک کر گری
اک بہن اپنی آنکھوں میں آنسو لیے

راہ تکتی رہی
ایک ننھا کھلونے کی امید میں

سر کو دہلیز پر رکھ کے سوتا رہا
ایک معصوم صورت دریچے سے سر کو لگائے ہوئے

خواب بنتی رہی
منتظر تھیں نگاہیں بڑی دیر سے

منتظر ہی رہیں
موت کی سی سپیدی افق تا افق

تلملاتی رہی