جنگ دھرتی پہ ستاروں کے لیے جاری ہے
حیف صد حیف کہ ہر شے پہ جنوں طاری ہے
کیا ہمیں اپنے مکانوں میں نہ رہنے دے گی
بستیاں دور خلاؤں میں بسانے کی لگن
جنگ در جنگ سلگتے ہیں صداؤں کے بدن
سبز راتوں کے سیہ خون سے تر ہے دامن
آسماں آگ نگلنے پہ ہے مجبور تو پھر
ہر دشا برف کی مانند پگھل جائے گی
زندگی ہاتھ سے دنیا کے نکل جائے گی
ساری تعمیر تباہی میں بدل جائے گی
کوئی تو اپنی قباؤں کو بنا کر پرچم
نعرۂ امن ہواؤں کی جبیں پر لکھ دے
نظم
جنگ
چندر بھان خیال