دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو
بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں
کس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو
فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لے کر
تم نہ اٹھ سکو لوگو
کب تلک یہ خاموشی
چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو!
یہ ملیں یہ جاگیریں
کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں
کس کے بل پہ جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل
داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی
کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آ کر
کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں
کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسانو!
علم و فن کے رستے میں
لاٹھیوں کی یہ باڑیں
کالجوں کے لڑکوں پر
گولیوں کی بوچھاڑیں
یہ کرائے کے غنڈے
یادگار شب دیکھو
کس قدر بھیانک ہے
ظلم کا یہ ڈھب دیکھو
رقص آتش و آہن
دیکھتے ہی جاؤ گے
دیکھتے ہی جاؤ گے
ہوش میں نہ آؤ گے
ہوش میں نہ آؤ گے
اے خموش طوفانو!
دس کروڑ انسانو!
سیکڑوں حسن ناصر
ہیں شکار نفرت کے
صبح و شام لٹتے ہیں
قافلے محبت کے
جب سے کالے باغوں نے
آدمی کو گھیرا ہے
مشعلیں کرو روشن
دور تک اندھیرا ہے
میرے دیس کی دھرتی
پیار کو ترستی ہے
پتھروں کی بارش ہی
اس پہ کیوں برستی ہے
ملک کو بچاؤ بھی
ملک کے نگہبانو
دس کروڑ انسانو!
بولنے پہ پابندی
سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی
آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرف آخر ہے
بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا
رات چند لوگوں کی
اٹھ کے درد مندوں کے
صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
دس کروڑ انسانو!
نظم
جمہوریت
حبیب جالب