EN हिंदी
جلوۂ سحر | شیح شیری
jalwa-e-sahar

نظم

جلوۂ سحر

نشور واحدی

;

تمام اوراق شبنمستان‌ سحر کی کرنوں سے جگمگائے
طلوع ہوتی ہے صبح جیسے کلی تمنا کی مسکرائے

کہیں درختوں میں غول چڑیا کا بیٹھ کر چہچہا رہا ہے
کہیں سے طوطوں کا جھنڈ اٹھا فضائے گلشن میں غل مچائے

سڑک جو آتی ہے چھاؤنی سے چہل پہل اس پہ خوب ہی ہے
نکل کے گنجان بستیوں سے برائے تفریح سب ہیں آئے

اسی پہ آتا ہے ایک موٹر بھی ڈاک خانے کی ڈاک لینے
اسی پہ جاتے ہیں کچھ دیہاتی لدی ہوئی گاڑیاں ہکائے

ٹہلنے جاتی ہیں لڑکیاں کچھ حسین پھولوں کی کیاریوں میں
نگاہ جادو شباب جادو جو آنکھ ڈالے وہ لٹ ہی جائے

ادھر سے گنگا کو جا رہے ہیں کچھ آدمی چھاگلیں سنبھالے
ادھر سے گنگا سے آ رہی ہے کچھ عورتیں نور میں نہائے

ادھر سے کالج کی ایک لڑکی بھی اپنے کالج کو جا رہی ہے
کتاب دابے قدم بڑھائے شباب تھامے نظر جھکائے

ادھر سے ایک نوجوان لیڈی نئے خیالوں کی آ رہی ہے
نگاہ رقصاں شباب عریاں جو اس کو دیکھے وہ مسکرائے

ادھر سے شاعر نشورؔ حیراں بھی اپنی سیروں میں جا رہا ہے
قدم تخیل میں ڈگمگائے نئے شبابوں سے چوٹ کھائے