EN हिंदी
جلتی رات سلگتے سائے | شیح شیری
jalti raat sulagte sae

نظم

جلتی رات سلگتے سائے

پریم واربرٹنی

;

قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے لہو
لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے حیات

میرے زانو پہ رکھ کے سر اپنا
رو رہی ہے اداس تنہائی

کتنا گہرا ہے درد کا رشتہ
کتنا تازہ ہے زخم رسوائی

حسرتوں کے دریدہ دامن میں
جانے کب سے چھپائے بیٹھا ہوں

دل کی محرومیوں کا سرمایہ
ٹوٹے پھوٹے شراب کے ساغر

موم بتی کے ادھ جلے ٹکڑے
کچھ تراشے شکستہ نظموں کے

الجھی الجھی اداس تحریریں
گرد آلود چند تصویریں

میرے کمرے میں اور کچھ بھی نہیں
میرے کمرے میں اور کچھ بھی نہیں

وقت کا جھریوں بھرا چہرہ
کانپتا ہے مری نگاہوں میں

کھو گئی ہے مراد کی منزل
غم کی ظلمت فروش راہوں میں

میرے گھر کی پرانی دیواریں
ہر گھڑی دیکھتی ہیں خواب نئے

پر مری روح کے خرابے میں
کون آئے گا اتنی رات گئے

زندگی مہرباں نہیں تو پھر
موت کیوں درد آشنا ہوگی

کھٹکھٹایا ہے کس نے دروازہ
دیکھنا سر پھری ہوا ہوگی