EN हिंदी
جہنمی | شیح شیری
jahannami

نظم

جہنمی

جاوید اختر

;

میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں

دہکتا اور پگھلتا
دھیرے دھیرے آگے بڑھتا

غم کا یہ لاوا
اگر چاہوں

تو رک سکتا ہے
میرے دل کی کچی کھال پر رکھا یہ انگارا

اگر چاہوں
تو بجھ سکتا ہے

لیکن
پھر خیال آتا ہے

میرے سارے رشتوں میں
پڑی ساری دراڑوں سے

گزر کے آنے والی برف سے ٹھنڈی ہوا
اور میری ہر پہچان پر سردی کا یہ موسم

کہیں ایسا نہ ہو
اس جسم کو اس روح کو ہی منجمد کر دے

میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں

دہکتا اور پگھلتا
دھیرے دھیرے آگے بڑھتا

غم کا یہ لاوا
اذیت ہے

مگر پھر بھی غنیمت ہے
اسی سے روح میں گرمی

بدن میں یہ حرارت ہے
یہ غم میری ضرورت ہے

میں اپنے غم سے زندہ ہوں