EN हिंदी
جہنم | شیح شیری
jahannam

نظم

جہنم

باقر مہدی

;

جب پاس نہیں کچھ بھی میرے
خواہش مقصد آدرش کے ٹوٹے آئینے

پھر گردش روز و شب کا مجھے احساس ہے کیوں
کیا غم مجھ کو جب صبح کی کوئی فکر نہیں

اور شام الم سے ڈر بھی نہیں
وہ پاؤں میں اب چکر بھی نہیں

سائے کی کوئی حاجت بھی نہیں
اب موت کا کھٹکا کوئی خلش موہوم تمنا کا ارماں

کچھ بھی تو نہیں
پھر کیسے میں کہتا ہوں مجھے

موسم کے بدلتے رنگوں کا احساس ہے بس
ایسا تو نہیں میں مر بھی چکا

اور کوئی نہیں ہے نوحہ کناں
(ماضی کی روایت، ،حال کا غم فردا کی امیدیں کیا ہوں گی)

جب ان سے نہیں میں وابستہ
پھر کیا ہے کوئی راز تو ہے

اک آگ سی جلتی رہتی ہے رگ رگ میں مری
اک بے معنی سا درد مرا احساس جگاتا رہتا ہے

اس طرح کہ میں سب کچھ یونہی محسوس کروں اور کچھ نہ کہوں
جب تک یہ جہنم روشن ہے

میں زندہ ہوں