جہاں میں کھڑی تھی
وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا
جس جا پہ موسم بدلنے کو تیار بیٹھے تھے
میرے یہ بس میں نہیں تھا کہ میں
اپنی کھڑکی کے آگے پگھلتے ہوئے
منظروں میں کوئی
اپنی مرضی کا ہی رنگ بھر دوں
خزاں کی اکڑتی ہوئی زرد بانہوں کو
اپنے جھروکے کے آگے یہ بد رنگ پیلے مناظر
سجانے سے ہی روک پاؤں
درختوں کی مضبوط شاخوں سے دامن چھڑاتے
ہوئے زرد پتوں کو روکوں
بکھرتے ہوئے پھول لچکیلی، سرسبز شاخوں پہ پھر سے کھلاؤں
ہواؤں کی پژمردہ سانسوں میں پھر زندگی دوڑ جائے
پرندوں کی چہکار ابھرے، ندی مسکرائے
جہاں میں کھڑی تھی
وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا
رستے میں بکھرے ہوئے کتنے پل تھے
ادھورے سفر تھے
مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں
سارے بکھرے ہوئے پل ہی ترتیب دے دوں
مسافت کے مارے ہوئے راستے منزلوں سے ملا دوں
الجھتی ہوئی، سر پٹختی ہوئی تند موجوں کے آگے کنارے بچھا دوں
جہاں میں کھڑی تھی
وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا
جس جا پہ دنیا تھی، ٹھہرا ہوا وقت تھا
جس جگہ زندگی تھی
مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں
زندگی سے یہ کہہ دوں
کہ ٹھہرے ہوئے وقت سے آگے کچھ پل نکلنے نہ پائے
یہ دنیا کو جا کے بتائے
مجھے سانس لینے کو تھوڑی جگہ چاہیئے
وقت کا ایک اجالا کنارہ ملے
زندگی سے کچھ ایسا اشارہ ملے
اس زمانے کا ہی ساتھ سارا ملے
میں اسے جا کے کہہ دوں
مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ میں
اپنی بانہیں اٹھاؤں
قدم کو بڑھاؤں
نگاہوں سے اس کو بلاؤں
اسے کہہ ہی پاؤں
کہ ہے یہ قدم، دو قدم ہی کا رستہ
جہاں میں کھڑی ہوں!
نظم
جہاں میں کھڑی تھی
عنبرین صلاح الدین