EN हिंदी
جگمگا اٹھا ہے رنگ منچ | شیح شیری
jagmaga uTTha hai rang manch

نظم

جگمگا اٹھا ہے رنگ منچ

امت برج شا

;

آؤ زندگی زندگی کھیلیں
یہ جھوٹ ہے کہ میں تمہارے لیے چاند توڑ کے لا سکتا ہوں

پر اس خیال کی سچائی کو ہی عشق کہتے ہیں
روح جب جلتی ہے تو کندن بنتا ہے

تیری بے وفائی کی اس سے اچھی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے
صبح سے روٹی کمانے میں لگا ہوا ہوں

اب جب شام ہو گئی ہے تو شراب پینے کا من ہوتا ہے
میرے داغ دل میں ایک چراغ ایسا بھی ہے

جو اماوس کی رات میں میری بجھتی سانسوں کو گرماہٹ دیتا ہے
آدمی کی کھدائی کا وقت کیوں نہیں آتا

دنیا مر رہی ہے کوئی اسے بچانے کیوں نہیں آتا
تیرے آنے سے وہ تمام ادھورے خواب پورے ہو گئے

جنہیں دیکھنا نا میری تقدیر میں تھا اور نا تدبیر میں
میں ایک مشہور شاعر نہیں

پر اس سے میری شاعری میں درد کم تو نہیں ہو جاتا
کورے کاغذ پر بھی کچھ شبد بستے ہیں

ہم بس انہیں پڑھ نہیں پاتے
کون کس کے خلاف گواہی دے

سب کے من میں ایک چور تو ہے ہی
میری گواہی اس کی جان لے سکتی ہے

گواہی نا دی تو میرا ضمیر مجھے مار دے گا
چند دوستوں کے افسانے اب پرائے ہو گئے ہیں

اب کھوٹے سکے جیب میں رکھنے کا من نہیں ہوتا
جب بھی کسی شمشان کے پاس سے گزرتا ہوں

اپنی اوقات پتہ لگ جاتی ہے
کل رات آئینہ دیکھ کر کیوں نہیں سویا

صبح اپنے ہی گھر میں پرایا بن گیا
ہر شہر ہر گلی میں صرف لوگوں کی چیخیں سنائی دیتیں ہیں

رام رحیم کے اس جھگڑے میں ان دونوں کے علاوہ سب ہیں