EN हिंदी
’’جب ترسیل بٹن تک پہنچی‘‘ | شیح شیری
jab tarsil baTan tak pahunchi

نظم

’’جب ترسیل بٹن تک پہنچی‘‘

حنیف ترین

;

کل، ترا نامہ
جو ملتا تھا ہمیں

اس کے الفاظ تلے
مدتیں، معنی کی تشریحوں میں

لطف کا سیل رواں رہتا تھا
راتیں بستر پہ

نشہ خواب کا رکھ دیتی تھیں
عطر میں ڈوبی ہوئی دھوپ کی پیمائش پر

چاندنی ،نیند کو لوری کی تھپک دیتی تھی
ذہن میں صبح و مسا

اک عجب فرحت نو رستہ سفر کرتی تھی
لیکن اب۔۔۔ قربتیں ہیں بہم

سماعت کو ۔۔۔مگر۔۔
فون کی گھنٹی کو سننے کو ترستی خواہش

منقطع رابطہ پانے کے لیے کوشاں ہے
انگلیاں رہتی ہیں

ایک ایک بٹن پر رقصاں
یہی معمول ہے مدت سے

مگر، ٹیلیفون
ایک خاموش صدا دیتا ہے

سلسلہ لمحوں کا
صدیوں سا بنا دیتا ہے