خستگی شہر تمنا کی نہ پوچھ
جس کی بنیادوں میں
زلزلے موج تہہ آب سے ہیں
دیکھ امید کے نشے سے یہ بوجھل آنکھیں
دیکھ سکتی ہیں جو
آئندہ کا سورج زندہ
دھوپ کے پیالے میں
زیست کی ہریالی
زرد چہرے پہ یہ کیسا ہے پریشان لکیروں کا ہجوم
اور کیوں خوف کی بد شکل پچھل پائی کوئی
تجھے باہوں میں جکڑنے کو ہے
زلزلے، نیند سے بیدار ہوا چاہتے ہیں کیا، تو کیا
چھوڑ بھی شہر تمنا کا خیال
(دیکھ امید کے نشے سے یہ بوجھل آنکھیں)
شہر مسمار کہاں ہوتا ہے
شہر آثار قدیمہ میں بدل جائے گا

نظم
جب بینائی ساون نے چرائی ہو
سعید احمد