EN हिंदी
جاناں | شیح شیری
jaanan

نظم

جاناں

خورشید اکبر

;

روٹھنا تھا کسے منانا تھا
وقت کے ساتھ گنگنانا تھا

لہر دریا کے ساتھ رہتی ہے
بجلی بادل میں ہے عجب رشتہ

سانس کی ڈور بن کے جسم کے ساتھ
روح ہر لمحہ ہے روانی میں

کھیلتی ہے وہ آگ پانی میں
وقت کی بات ہے الگ جاناں

حسن سوغات ہے الگ جاناں
پھول سے روٹھتی ہے کب خوشبو

رات سے روٹھتا ہے کب جگنو
نین سے دور کب رہا جادو

ہنستے ہنستے نکل گئے آنسو
یوں تو ہر شے کو ہے فنا یعنی

رہ گیا اپنا مدعا یعنی
اس طرح سے کوئی نہیں جاتا

جس طرح روٹھ کر گئے جاناں