EN हिंदी
جان کے عوض | شیح شیری
jaan ke ewaz

نظم

جان کے عوض

تنویر انجم

;

بچہ لالٹین کی روشنی میں پڑھ رہا ہے
بوڑھا اپنی دعائیں بانٹ رہا ہے

مجھے تمہارے الزام پر اپنی صفائی پیش کرنا ہے
کوئی کہتا ہے

الفاظ میری گرفت سے باہر ہیں
سوچ میری گرفت سے باہر ہے

دل میری گرفت سے باہر ہے
کوئی کہتا ہے

میری نگاہیں دیوانی معلوم ہوتی ہیں
اپنی صفائی پیش کرنا میرے بس سے باہر ہے

مجھ پر گہرے سمندر میں تیرنے کا الزام ہے
مجھ پر گھنے جنگل میں راستہ ڈھونڈنے کا الزام ہے

مجھ پر کڑی دھوپ میں جان دینے کا الزام ہے
بچہ آج کا سبق پڑھ چکا ہے

بوڑھا اپنی دعائیں بانٹ چکا ہے
تم الزام لگا کر کس انتظار میں ہو

بچے کی لالٹین بجھائی نہیں جا سکتی
بوڑھے کی دعائیں چرائی نہیں جا سکتیں

میں اپنے الفاظ
اپنی جان کے عوض

بیچ نہیں سکتی