طبیعت جو اندر سے جھنجھلا رہی ہے
تو باہر سے آواز یہ آ رہی ہے
کہ اے فاضل درس گاہ حماقت
حجابات دانش اٹھا کر بھی دیکھو
شرافت کے پیچھے جگر ہو گیا خوں
شرافت سے پیچھا چھڑا کر بھی دیکھو
ازل سے محبت خودی کا ہے زنداں
اب اس سے ذرا باہر آ کر بھی دیکھو
مروت نے پہنائی ہیں بیڑیاں جو
ذرا ان کا لوہا گھلا کر بھی دیکھو
تصور کی وادی میں بھٹکو گے کب تک
کبھی شہر امکاں میں جا کر بھی دیکھو
غرض مظہریؔ اس دیار جنوں میں
ملا، کچھ نہ کھونے سے پا کر بھی دیکھو
سنا مشورہ تیرا اے صوت غیبی
ضلالت کی سرحد میں آ کر بھی دیکھا
رذالت کی گردن میں بانہیں بھی ڈالیں
شرافت سے پیچھا چھڑا کر بھی دیکھا
حمیت کا گھونٹا گلا رفتہ رفتہ
محبت کو پھانسی چڑھا کر بھی دیکھا
کف مور سے اس کا لقمہ بھی چھینا
حق اہل خدمت چرا کر بھی دیکھا
شعور و خرد کو غرور و حسد کو
سلا کر بھی دیکھا جگا کر بھی
پھرے کو بہ کو عقل کی رہبری میں
غرض یہ کہ کھو کر بھی، پا کر بھی دیکھا
نہ کھونے سے حاصل، نہ پانے سے حاصل
جسے سود کہتے ہیں وہ بھی زیاں ہے
یہی بس کہ تقدیر عقل و جنوں ہے
یہی خشت تعمیر کون و مکاں ہے
محبت جہنم ہے، نفرت جہنم
جدھر جائیں اک آگ شعلہ فشاں ہے
دیار وفا یا دیار ہوس ہو
نہ راحت یہاں ہے نہ راحت وہاں ہے
شرافت بھی غمگیں رذالت بھی غمگیں
بس اب منہ نہ کھلوا خدا درمیاں ہے
سمک سے سما تک تپش ہی تپش ہے
فضا سے خلا تک فغاں ہی فغاں ہے
خودی پاؤں پکڑے ہے جائیں کہاں ہم
تصور کی جنت بنائیں کہاں ہم
نظم
جائیں کہاں ہم
جمیلؔ مظہری