کتنی ہی سوئی دوپہروں میں
کتنی ہی جلتی راتوں میں
ہر خواب ادھورا
مڑ مڑ کر
جانے کیا ڈھونڈا کرتا ہے
کچھ بھیگے پل
بوجھل قدموں کی چاپ لئے
حیران پریشاں
پوچھتے ہیں
یہ موڑ کہاں تک جاتا ہے
کچھ بے ہنگم سی تصویریں
دھندلی دھندلی
بے ڈول سے کچھ لمبے سائے
ویران ہمکتی تنہائی
امید کے روشن دانوں سے
کیا منظر دیکھا کرتی ہے
سناٹے کے اس شور میں بھی
موہوم سی ایک امید کبھی
کروٹ کروٹ خود سے پوچھے
آواز ابھی جو گونجی تھی
وہ بانگ جرس تھی
یا کوئی
پازیب کہیں ٹکرائی ہے
نظم
اضطراب
سلمان انصاری