کیسے میں بھی بھول جاؤں
زندگی سے اپنا ربط اولیں
ایک دور افتادہ قریے کے قریب
اک جنوں افروز شام
نہر پر شیشم کے اشجار بلند
چاندنی میں ان کی شاخوں کے تلے
تیرے پیمان محبت کا وہ اظہار طویل
روح کا اظہار تھے بوسے مرے
جیسے میری شاعری میرا عمل
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں
کیسے کر ڈالوں میں جسم و روح کو
آج بے آہنگ و نور
تو کہ تھی اس وقت گم نامی کے غاروں میں نہاں
میرے ہونٹوں ہی نے دی تجھ کو نجات
اپنی راہوں پر اٹھا لایا تجھے
زندۂ جاوید کر ڈالا تجھے
جیسے کوئی بت تراش
اپنے بت کو زندگی کے نور سے تاباں کرے
اس کو برگ و بار دینے کے لیے
اپنے جسم و روح کو عریاں کرے
میرے بوسے روح کا اظہار تھے
روح جو اظہار ہی سے زندہ و تابندہ ہے
ہے اسی اظہار سے حاصل مجھے قرب حیات
روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں
نظم
اظہار
ن م راشد