ہر آدمی کی قسمت میں
ایک نہ ایک سزا ہوتی ہے
میرے لیے ہر بار
تم سے دور رہنے کی سزا منتخب کی جائے گی
نا انصافی کے پیش نظر
سزا کا کام کسی منصف پر نہیں چھوڑا جائے گا
لیکن اس کے باوجود
وہ توہین کا وہ نوٹس نہیں جاری کر سکیں گے
جس میں وہی ہوں گے مدعی
وہی ہوں گے منصف
ہماری شہریت کو خام کر دیا گیا ہے
اچھا ہوا کہ ہمارے دلوں کو
آبگینے تراشنے والوں پر نہیں چھوڑا گیا
ایک آوارہ منش نے
مجھے چاک چلانا
اور مٹی میں دل رکھنا سکھایا
میں ہر رات اپنے دل کو
مٹی میں ملاتا اور نئی نئی طرح گوندھتا ہوں
ہر صبح اس ملک کے لیے
ایک نیا خواب ڈھالتا ہوں
جس کے لیے جغرافیے کی تاریخ میں
کوئی جگہ نہیں ہوگی
ابھی آسمانوں پر رہنے والوں کو
میرے جرائم کا علم نہیں ہوا
ورنہ وہ میرے سر پر
ایک آدھ آسمان ضرور گرا دیتے
احتیاطاً
میں نے
تمہیں ان ساری باتوں
اور اپنے خوابوں سے دور رکھا ہے
اسی لیے اب تک
کسی مصور یا مجسمہ ساز نے
تمہیں کوئی شکل نہیں دی
میں نے تمہیں ان خیالوں سے بھی دور رکھا ہے
جن تک کوئی شاعر رسائی حاصل کر سکے
یہاں تک کہ
میں نے تمہیں اپنی رسائی سے بھی دور رکھا ہے
تاکہ تمہارے وہ لباس آلودہ نہ ہوں
جنہیں پہن کر
تم آئینے کے سامنے نہیں جاتی ہوگی
جنہیں پہن کر
تم باغ کی سیر
اور بازار جانا بھی موقوف کر دیتی ہوگی
میں نے
اپنے لیے سزا تجویز کرنے کا اختیار
کسی کو نہیں دیا
تمہیں بھی نہیں
ورنہ تم میرے لیے قربت تجویز کر سکتی تھیں
نظم
اضافی ضرورتوں کے لیے ایک نظم
انور سین رائے