ابل رہا ہے ترنم چھلک رہی ہے شراب
پیو پیو کہ نئے سال کی کرن پھوٹی
مگر یہ کون ہے ہر بار مجھ سے کہتا ہے
ترا خمار بھی جھوٹا شراب بھی جھوٹی
وہ دیکھو بنت کلیسا کی نیلگوں آنکھیں
جھکی جھکی سی ہیں پلکیں مگر سبو دے گی
یہ چیخ ہاں یہ تمدن کی ایک ہچکی تھی
اسی دیار میں انسانیت لہو دے گی
مگر لہو تو ٹپکتا ہے سرخ ڈوروں سے
اسی لہو میں شرابور ہیں لب و رخسار
مگر یہ کس کا لہو ہے جو مجھ سے کہتا ہے
مرے ابال سے بڑھتا ہے زندگی کا وقار
سکون صبر قناعت نجات تقدیریں
یہ بورژائی تمدن کی اصطلاحیں ہیں
قدم اٹھے ہیں تو منزل پہ جا کے دم لیں گے
مری نگاہ میں دنیا کی شاہراہیں ہیں
میں جانتا ہوں یہ تہذیب جی نہیں سکتی
یہیں حیات کا زخمی سکوت ٹوٹے گا
کہو کہو مرے جاں باز ساتھیوں سے کہو
اسی افق پہ نیا آفتاب ابھرے گا
نظم
استقبال
اختر پیامی