EN हिंदी
اسم اعظم | شیح شیری
ism-e-azam

نظم

اسم اعظم

محمد حنیف رامے

;

اکیس سال عمر تھی اس کی بس
ابھی اس نے گویا زندگی کو آنکھ بھر کے دیکھا بھی نہ تھا

کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ زمانے کی ریت کے مطابق
چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا

اور تین سال میں تین بچے بھی پیدا ہو گئے
پھر اچانک بیچاری کو وہ بیماری مل گئی

جس کے پنجے سے کوئی خوش نصیب ہی چھٹتا ہے
مجھے برسوں پہلے گاؤں میں اپنی چتکبری بکری یاد آ گئی

جس نے ایک جھولی میں پانچ بچے دیے تھے
اور چند روز بعد مر گئی تھی

مری ہوئی بکری کے تھنوں سے اس کے پانچوں بچے
دودھ کی آخری بوند تک نچوڑ لینے کے چکر میں

ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے
میں نے خدا سے کہا

غضب کے ستم ظریف ہو تم بھی
آدمی کو اتنا کمزور پیدا کیا ہے

بکری کا بچہ تو جنم لیتے ہی چار ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا ہے
مگر آدمی کا بچہ برس ہا برس تک یتیموں کی طرح سہارے ڈھونڈھتا پھرتا ہے

اور پھر تم یہ سہارے بھی چھین لیتے ہو
چلو مرحوم باپ کی جگہ تو تم خود پر کر لیتے ہو

کہ آسمانی باپ کہلانے کا تمہیں ازل سے شوق ہے
لیکن یہ نو مولود اور نوخیز بچوں کو تم ماؤں سے کس کھاتے میں محروم کر دیتے ہو

ہنسا بہت ہنسا
میں کہے بغیر نہ رہ سکا کہ آفرین ہے

دوسرے کے دکھ پر اس طرح کھلے بندوں تو سفاک سیاست داں بھی نہیں ہنستے
اچانک میرا شانہ جھنجھوڑ کر بولا ذرا میری طرف دیکھو

مجھے گمان تھا کہ تو رات اور قرآن کے اوراق سے نکل کر
ایک پر جلال مردانہ پیکر میرے سامنے ہوگا

مگر وہاں تو ایک ہری بھری عورت کھڑی تھی
جس کی چھاتیوں سے دودھ کی دھاریں فوارے کی طرح پھوٹ رہی تھیں

قریب تھا کہ میں غش کھا کر گر جاتا
اسی نے مجھے سنبھالا دیا

اور دھیرے سے کہا
میں باپ بھی ہوں آسمانوں میں

میں ماں بھی ہوں زمین پر
دوبارہ اس کی جانب دیکھا

آنکھوں سے دو گرم گرم آنسو میرے چہرے پر ٹپک پڑے
میں نے کہا پہلے تم ہنس رہے تھے

اب تم رو رہی ہو
کہا ہنسی اور رونے کا ایک ہی نام ہے

زندگی
میں نے کہا تمہارے مردانہ ناموں کا تو شمار نہیں

لوگوں کو نناوے کے پھیرے میں ڈال رکھا ہے تم نے
مرشدوں سے اسم اعظم پوچھتے پوچھتے بے حال ہو جاتے ہیں

اب تمہارے زنانا نام بھی ڈھونڈنے پڑیں گے
زیر لب مسکرا کے کہا

پیدا ہوتے ہی تم سب کے منہ پر میرا اسم اعظم آ جاتا ہے
ہر کوئی از خود پکار اٹھتا ہے

ماں
اور پھر اپنی ماں کی چاہت میں سب کی ماں کی بھول جاتا ہے

نام بھی یاد نہیں رہتا اس کا