عشق کو ایک نظر کافی ہے
آگہی پہلے سے درکار نہیں
دوستی برسوں کی ہم رازی ہے
جلدی بازی کا یہ بازار نہیں
ہو بھی سکتی ہے کبھی وہ حالت
گو ہو مدت کا خلوص اور نیاز
ایک لمحہ میں بناتی ہے جو گت
پیاری صورت کبھی پیاری آواز
غور و فکر اس کے سدا ہیں ہم دست
ملنے جلنے سے ہے پیدا ہوتی
گرم جوشی کی ہے مے سے سرمست
دوستی ہے مری دیکھی بھالی
عقل کے اس میں کرشمے دیکھو
کچھ بگڑتی ہے کچھ اٹھلاتی ہے
جب پہنچ جاتی ہے اس کی تہ کو
تب بصد فخر یہ سمجھاتی ہے
نہ سنے اور نہ ہرگز دیکھے
دوستوں میں ہو اگر عیب بھی آہ
چاہیے یوں نظر انداز کرے
کہ ہوا بھی نہیں گویا آگاہ
عشق میں اس کی کہاں ہے مہلت
کچھ بھی سوچے سنے دیکھے بھالے
کیا بھلا سمجھیں وہ اس کی حالت
اس کی مے سے جو نہ ہوں متوالے
اس کے اسرار سے ہو کون آگاہ
بے قراری کبھی محویت ہے
خوب راسخؔ نے کہا ہے واللہ
عشق اک زور ہے کیفیت ہے
نظم
عشق و دوستی
عظیم الدین احمد