EN हिंदी
عشق ماہی بغیر آب | شیح شیری
ishq mahi baghair aab

نظم

عشق ماہی بغیر آب

خورشید اکبر

;

جاگتے سوتے یہ خیال آیا
تجھ کو سوچا تو یہ سوال آیا

تم کہاں اور میں کہاں جاناں
فاصلے کیوں ہیں درمیاں جاناں

یوں ملے ہم کہ مل نہیں پائے
پھول حسرت کے کھل نہیں پائے

برق پر نامہ بر سوار ہوا
دھوپ میں ابر سایہ دار ہوا

پھر تعلق کے تار ٹوٹ گئے
ہم پہ صدمے ہزار ٹوٹ گئے

بے بسی کی عجیب شام آئی
زندگی مثل انتقام آئی

پھر تری دید کی سعادت ہو
وقت کو عید کی بشارت ہو

غیر ممکن ہے اس طرح ہونا
غم نہانا ہے داغ ہے دھونا

مسئلہ آ گیا ہے پانی کا
یعنی دریا کی بے زبانی کا

قربت جاں کے مشک ہوتے ہی
اک سمندر کے خشک ہوتے ہی

درد صحرا نصیب ہے اپنا
ایک وحشت رقیب ہے اپنا

سلسلہ دور تک سراب کا ہے
عشق ماہی بغیر آب کا ہے