EN हिंदी
عشق کی تقویم میں | شیح شیری
ishq ki taqwim mein

نظم

عشق کی تقویم میں

حارث خلیق

;

مشیرؔ انکل! یہ سب باتیں ادھوری ہیں
جو میں نے آپ سے کی تھیں

جو مجھ سے آپ نے کی ہیں
مگر چلیے

ابھی تو جن کی بوتل
اور آدھی شام باقی ہے

یہ باتیں پھر سے کرتے ہیں
مشیرؔ انکل! زمانہ عشق سے بڑھ کر نہیں ہے

جو کہے جو کچھ کرے
جو بھی دکھائے

عشق سے بڑھ کر نہیں ہے
عشق تو خود اک زمانہ ہے

یہ پورا عہد ہے
اک دور ہے

اس دور میں کیا کیا نہیں ہوتا
کبھی یہ دور دور ابتلا ہے

اور کبھی اک سر خوشی
وارفتگی کا عہد پیہم ہے

مشیرؔ انکل! کبھی محبوب کا جب نام آ جائے
تو میری سانس کی ڈوری میں

گرہیں پڑنے لگتی ہیں
یہ میں اور آپ دونوں جانتے ہیں

جس طرح جادو ہے برحق
عشق برحق ہے

زمینوں آسمانوں
اس جہاں، باقی جہانوں میں

زمان عشق برحق ہے
مشیرؔ انکل ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں

مسئلہ یہ ہے
کہ دونوں راستے اب

ایک ہی جانب سے آتے
ایک ہی جانب کو جاتے ہیں

کہ میں اور آپ دونوں جانتے ہیں
جس طرح جادو ہے برحق

عشق برحق ہے!