EN हिंदी
اس وقت تو یوں لگتا ہے | شیح شیری
is waqt to yun lagta hai

نظم

اس وقت تو یوں لگتا ہے

فیض احمد فیض

;

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا

آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا

شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

اک بیر نہ اک مہر نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا

مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت گھڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے