اس سے پہلے
جتنی عیدیں گزری ہیں
ہر عید سے پہلے
میرے بچے
اپنی نرم روپہلی بانہیں
میری گردن میں جب ڈال کے کہتے تھے
ہم عیدی لینے آئے ہیں
وہ خوشیوں سے لبریز منور گھڑیاں
کتنی اچھی لگتی تھیں جب
بڑی بڑی رقموں کو وہ ٹھکراتے تھے
اور بڑے بڑے تحفوں پر بھی وہ
اپنے منہ لٹکاتے تھے
وہ مجھ سے روٹھ کے
اپنی امی کے پہلو میں جاتے تھے
وہ ان کی چمکیلی چاہت
وہ ان کے روٹھ کے جانے کی
بے درد سی حسرت
جب بھی کروٹ لیتی ہے
دل خون کے آنسو روتا ہے
اور اب کے حصار زنداں میں
یوں عید ہماری گزری ہے
وہ جھگڑا کرنے والے
روٹھ کے جانے والے بچے
مجھ کو جیل میں عیدی دینے آئے ہیں
نظم
اس سے بڑا دکھ کیا ہوگا
صفدر سلیم سیال