یہ آنکھیں بالکل ویسی ہیں
جیسی مرے خواب میں آتی تھیں
پیشانی تھوڑی ہٹ کر ہے
پر ہونٹوں پر مسکان کی بنتی مٹتی لہریں ویسی ہیں
آواز کا زیر و بم بھی بالکل ویسا ہے
اور ہاتھ جنہیں میں خواب میں بھی
چھونا چاہوں تو کانپ اٹھوں
یہ ہاتھ بھی بالکل ویسے ہیں
یہ چہرہ بالکل ویسا ہے
پر اس پر چھائی خاموشی کچھ ان دیکھی
اور اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے
ان شانوں کا پھیلاؤ تھوڑا کم ہے
لیکن قامت بالکل ویسی ہے
اور تم سے مل کر میرے دل کی حالت بالکل ویسی ہے

نظم
اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے
ثمینہ راجہ